ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ ۶ ، جلد: ۹۴ ، جمادی الثانی- رجب ۱۴۳۱ ہجری مطابق جون ۲۰۱۰ ء

 

امت مسلمہ کے ساتھ پریس (میڈیا) کا رویہ

از: مولانا محمد اقبال ٹنکاروی ، گجرات

 

ہارون: السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

امتیاز: وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ، ارے بھائی کیا بات ہے، کئی دن سے نظر ہی نہیں آتے، اور یہ آپ کو کس کی نظر لگ گئی، آپ تو ماشاء اللہ بڑے موٹے تازے، ڈیل ڈول جسم والے تھے، کیا کوئی الجھن پیش آئی ہے؟ یا کسی بیماری کا شکار ہوگئے ہیں؟

ہارون: بھائی، الحمدللہ کوئی بیماری نہیں ہے، البتہ الجھن ضرور لاحق ہوئی ہے، اچھا ہوا کہ آپ مل گئے اور اپنا بوجھ ہلکا کرنے کا موقع مل گیا۔

آپ بھی شاید اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی میں کچھ نہ کچھ سنتے، دیکھتے ہوں گے، ہر روز کوئی نہ کوئی مسلمان اخبارات کی سرخی اور ٹی وی کا ہیرو بنا ہوا ہوتا ہے، کہیں دہشت گردی، بم دھماکے، کہیں کسی کے قتل کے فتوے، تو کہیں قتل پر لاکھوں ڈالر کے انعامات کے اعلانات، الغرض کوئی ہفتہ چین سے نہیں گذرتا، ایسا لگتا ہے کہ اس قوم کو باولے کتّے نے کاٹ کھایا ہے کہ اس کو چین و سکون اور امن وعافیت سے رہنا اچھا نہیں لگتا۔ فتنہ اور ہنگامہ ہی ان کی طبیعت ثانیہ بن گئی ہے، آخر ڈسپلن (Discipline) سیکولرزم، بھائی چارگی، وطن پرستی اور قومی دھارے میں یہ کب شریک ہوگی؟

امتیاز: بھائی، آپ کی بات ظاہر میں تو صحیح لگتی ہے، حقیقت میں مسلمان اخبارات اور میڈیا کے منظورِ نظر بنے ہوئے ہیں، لیکن ذرا ایمانی بصیرت وگہرائی سے حقائق کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ ایک سوچی سمجھی اسکیم کے ماتحت یہ سب کچھ ہورہا ہے، واقعات کی نوعیت وحقیقت کچھ ہوتی ہے، اور ان کو مخصوص طرزِ فکر واندازِ بیان سے بہت سوچ سمجھ کر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، جس سے یہ احساس دلانا ہے کہ مسلمان ہی دنیا میں ایک جنگ جو، جاہل اور تشددپسند قوم ہے، مسٹرگوئلر نے کہا تھا کہ جھوٹ اتنی کثرت سے بولو کہ لوگ اس کو سچ سمجھنے لگیں، اور لارڈ میکالے جس کے افکار و خیالات کی موجودہ تعلیمی نظریات پر چھاپ ہے، اس نے دعویٰ کیا تھا کہ عام پبلک کا حافظہ کمزور ہوتا ہے، لہٰذا کسی بات کو مختلف عنوانات دے کر الگ الگ رنگ میں پیش کیا جاسکتا ہے، تو یہ اخبارات و ٹی وی والے انہی آقاؤں کی نقالی میں واقعات کو توڑ مروڑ کے مختلف اسلوب وپیرایہٴ بیان سے عوام کے ذہن کو گندہ کرنا چاہتے ہیں۔

ہارون: یہ تو آپ لوگوں کا بہت پرانا جواب ہے، جب بھی عالم اسلام کے کسی کونہ میں کوئی حادثہ یا واقعہ پیش آئے تو اس کی ذمہ داری خود قبول کرنے کے بجائے یورپ وامریکہ کے سرپر ڈال دی جائے۔ انگریز کے دورِ حکومت میں دریا کی مچھلیوں کی آپسی لڑائی میں بھی آپ کے بزرگوں کو انگریزکی شرارت نظر آتی تھی۔ یاد رکھئے جو قوم اپنا محاسبہ نہیں کرتی وہ کبھی بھی زندگی کی شاہ راہ پر گامزن نہیں ہوتی ہے۔ اس طرح کے جوابات سے آپ بھولے بھالے مسلمانوں کی بھیڑ کو تو مطمئن کرسکتے ہیں، لیکن ہمارے جیسے گریجویٹ لوگوں کو آپ بے وقوف نہیں بناسکتے، کیا مسلمانوں نے خود مسلمانوں کی مسجدوں اور مدرسوں پر دھاوہ نہیں بولا ہے؟ الجزائر، پاکستان اور مصر میں بے گناہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہیں کیا گیا ہے؟ صومالیہ میں سخت قحط سالی کے باوجود دو گروہوں کا خونی تصادم، یمن، سوڈان اور افغانستان کی طویل خانہ جنگی، پاکستان کا فرقہ وارانہ جنون، بنگلہ دیش کی جذباتیت، ایران وعراق کی دس سالہ طویل جنگ، عراق اور خلیج کے ملکوں کا تصادم اور اس کے علاوہ دوسری علاقائی ملکی جنگیں جو عالم اسلام کو زبردست جانی ومالی نقصان پہنچانے کے ساتھ اسلام کو بھی بدنام کررہی ہیں، کیا یہ سب ہماری ہی جذباتیت، بے صبری، ناعاقبت اندیشی وبے وقوفی کے نتائجِ بد نہیں ہیں؟

امتیاز: بھائی! آپ کی بات صحیح ہے کہ مسلمانوں کے بہت سے مسائل ان کے پیدا کردہ ہیں، اور مسلم سماج میں ہونے والے قتل، اغواء اور ظلم وزیادتی کے واقعات ناقابل عفو ہیں، یہ سب غیر اسلامی غیراخلاقی بلکہ بسا اوقات وحشیانہ بھی ہوتے ہیں، ان کے اقرار کے ساتھ آپ سے اس کی تہہ میں جانے کی اور واقعات کے اسباب وعوامل کا ٹھنڈے دل ودماغ سے جائزہ لینے کی دعوت دیتاہوں۔ ان واقعات کی اصل وجہ مسلم قیادت کا ردِّ عمل (Reaction) والا جذبہ ہے، اس ردِّ عمل کے رجحانات پیدا ہونے کا واقعی سبب یہ ہے کہ ان تمام مسلم حاکموں کی نشوونما مکمل یورپی افکار وخیالات والے ماحول میں ہوئی ہے، جبکہ ملک کی اکثریت اسلامی معاشرہ ومزاج میں پلی بڑھی ہے۔ اکثر حاکم ظالم وجابر بلکہ انسانیت دشمن ہیں، جن کو عوام کے جذبات اور ان کی بنیادی ضروریات کا احساس نہیں ہے۔ یورپ کو وہاں جمہوریت وسیکولرزم کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، ان کی ڈکٹیٹرشپ (Dictatorship) اور تشدد صرف مسلم اکثریت کے حق میں ہی نمایاں ہوتا ہے، اقلیت کے ساتھ یہ سب حالات ہوتے ہوئے بھی ان کا تعلق رواداری بلکہ ان کے حقوق و جذبات ومذہبی تشخصات کا زیادہ لحاظ کرنے کا ہے، مسلمانوں پر ان کے اپنے ملکوں میں نام نہاد آزادی کے دور میں بھی ظلم وستم کے ایسے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، اور انہیں ذلّت ورسوائی، قتل وغارت گری، آبروریزی و عصمت دری، عقائد کی پامالی، اور ذہنی کشمکش کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، جتنا کہ حقیقی سامراجی وغلامی کے دور میں بھی نہیں کرنا پڑا تھا، اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھئے کہ یہ حالات صرف مسلم ملکوں میں ہی نہیں، بلکہ دنیاکے بہت سارے غیرمسلم ملکوں میں بھی دہشت گردی، فساد، عورتوں، بچوں اور نہتے لوگوں پر ظلم وتشدد کا بازار گرم ہے، ساؤتھ افریقہ میں کالوں گوروں کی لڑائی، روواندا اور بُرندی میں خود کالوں کی آپسی جنگ، نیپال میں ماؤوادیوں کا ظلم وتشدد، ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں میں مختلف باغی گروہوں کی سفاکانہ کارروائی، سری لنکا میں کئی سالوں کی خانہ جنگی ولاکھوں افراد کی تباہی، سابق سوویٹ (Soviet) روس میں کمیونسٹوں کی طرف سے کروڑوں انسانوں کا قتل، کمبوڈیا میں کمیونسٹوں اور غیر کمیونسٹوں کے درمیان جنگ، شمالی وجنوبی کوریا کا تصادم، برما سرکار اور حزبِ مخالف کی جنگ، اس کے علاوہ کئی ملکوں میں خونی جنگیں چلتی ہی رہتی ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اخلاقی جرائم، دہشت گردی اور تشدد کے واقعات غیر اسلامی سماج میں زیادہ پیش آرہے ہیں، کیونکہ غیراسلامی سماج میں اخلاقیات اور مرنے کے بعد حساب وکتاب کا کوئی تصور نہیں ہے۔ خیر و شر، ظالم ومظلوم، حق وناحق میں کوئی تمیز نہیں ہے۔ اگر آزاد ذرائع سے عالمی نقشہ تیار کیا جائے تو یہ حقیقت آشکارا ہوگی کہ یورپی تہذیب وثقافت سے متأثر سوسائٹیوں میں مسلم معاشروں کے مقابلہ میں زیادہ دہشت گردی واخلاقی جرائم پائے جاتے ہیں۔

اپنے سیاسی مقاصد کیلئے یورپ وامریکہ نے عالم اسلام کے مختلف ممالک کے درمیان جنگی صورتِ حال قائم کرکے فضاء کو گرمادیا، یہ سب مخفی سازشوں کا احساس مسلم قیادتوں کو نہیں ہے، اِکونومسٹ اخبار نے لکھا ہے کہ مسلم تحریکوں کے متعلق امریکی پالیسی تضاد وتعارض کا شکار ہے، یورپ وامریکہ اگر کسی اسلامی تحریک کے مخالف ہیں، تو دوسری جانب اس کی اعانت بھی کرتے ہیں۔ کسی بھی مسلم انتہاء پسند و دہشت گرد گروہ کی تہہ میں جائیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کی ٹریننگ امریکی صیہونی سراغ رسانی سے ہی وابستہ ہے۔ امریکہ ایک طرف ایران کے خلاف محاذ قائم کئے ہوئے تھا، تو دوسری طرف عراق کے خلاف ایران کو ہتھیار سپلائی کرتا تھا۔

ہارون: آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بھی صحیح لگتا ہے، لیکن ہم روزانہ اخبارات وغیرہ میں جو پڑھتے ہیں اس سے تو یہی احساس ہوتا ہے کہ مسلم سماج میں ہی اس قسم کی دہشت گردی اور بم دھماکے کے واقعات کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ جبکہ دنیا کی دوسری قومیں، تہذیبیں اور مذاہب والے اس طرح کی بنیادپرستی سے اپنے کو آزاد کرچکے ہیں، ان کے یہاں مذہبی رواداری وبھائی چارگی پائی جاتی ہے، ہماری طرح مذہبی کٹّرواد وسختی نہیں پائی جاتی ہے۔

امتیاز: بھائی آپ کون سی خوابی دنیا میں جی رہے ہیں، اسلامی سماج میں ہونے والے چھوٹے سے چھوٹے واقعہ کو رائی کا پربت بناکر نہایت گھناؤنی شکل میں پیش کرکے لوگوں کی آنکھوں میں دھول ڈالی جارہی ہے۔ مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگانے والے یورپ وامریکہ والے ہوں یا ہندوستان کے تشدد پسند آر- ایس- ایس والے ہوں، سب اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں کہ ان کا دامن کتنا پاک ہے؟ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ دنیا کے تمام برسرِ پیکار گروہوں اور باغیوں کو دہشت گردی و تشدد کی ٹریننگ کے اڈے اور ایشیا میں رونما ہونے والے نسلی وگروہی فسادات میں یورپ کا ہی ہاتھ ہے۔ بم دھماکوں اور قتل وخون ریزی کے بہت سے واقعات کی ذمہ داری مسلم تحریکوں پر عائد کی جاتی ہے، حالانکہ حقیقت میں وہ امریکی ویہودی خفیہ ایجنسیوں کا ہی کام ہوتا ہے، روانڈا میں ہونے والا عظیم انسانی قتل عام جس میں ۶/لاکھ بے گناہ آدمی مارے گئے، اِکونومسٹ اخبار مظلوموں کی شہادت کے ساتھ لکھتا ہے: کہ امن کی ڈگڈُگی بجانے والے چرچ کے بڑے بڑے پادریوں نے ایک فریق کی حیثیت سے اس عظیم خونریزی میں بڑھ چڑھ کر عملی طور پر شرکت کی ہے، کیونکہ یہ جنگ عیسائیوں کے دو مذہبی گروہوں کی بنیاد پر ہوئی ہے۔

اسی طرح انگلینڈ وآئرلینڈ کی دھماکہ خیز لڑائیاں بھی عیسائی مذہبی فرقوں کی جنگ ہیں، لیکن یورپ کو وہ بنیادپرستی نظر نہیں آتی، کیونکہ دونوں طرف عیسائی ہیں، مسلمان نہیں ، حال میں امنسٹی انٹرنیشنل نے کمبوڈیا، سابق یوغوسلاویہ اور سوویت یونین میں مختلف مشترکہ قبروں کا انکشاف کیا۔ یہ کروڑوں کی تعداد میں شہید ہونے والے مسلمان ہیں، جنہیں کمیونسٹوں نے مسلمان ہونے کی وجہ سے شہید کیاتھا، جنوبی سوڈان میں عیسائی باغیوں کو اور ایتھوپیا کے عیسائیوں کو سوڈان کے خلاف ٹریننگ دے کر امریکہ ہتھیاروں کے ساتھ سوڈان بھیج رہا ہے۔

الجزائر میں سیکولر وجمہوری طرز پر انتخابات ہونے کے باوجود اسلامی دہشت گردی کا بہانہ کرکے الیکشن منسوخ کراکے لاکھوں نہتے عوام کو فوج کے ہاتھوں قتل عام کراکے دہشت گردی پھیلائی جاتی ہے،اور اس کا الزام اسلامی تحریکوں پر عائد کیا جارہا ہے، حالانکہ فرانس کے اشاروں پر یہ سب کچھ ہورہا ہے، تاکہ عیسائیت کے قلعے محفوظ رہ سکیں، اسی بنیادپرستی کے الزام میں ترکی کی نجم الدین اربگان صاحب کی حکومت کا خاتمہ کرایاگیا، تاکہ وہاں کے عوام اپنی پسند کی تہذیب وکلچر پر عمل نہ کرسکے۔

الغرض مسلمان اپنے دینی شعائر کا مطالبہ کریں تو دہشت گردی ہے، اور دوسرے اگر دین میں مداخلت کریں، اسلامی تہذیب وکلچر ختم کرکے اپنا کلچر زبردستی نافذ کرناچاہیں تو بھی وہ آزادی و رواداری ہے، واہ رے! جمہوریت وسیکولرزم

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی

جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

ہندوستان کی بھاجپا سرکار کا دنیا کے سب سے بڑے سیکولر ملک کی اسکولوں میں ایجوکیشن جیسے اہم شعبے کو بھی مجروح کرنا، کورس میں ہندوتو کو زندہ کرنے کی کوشش، تاریخ و جغرافیہ میں تبدیلی کرنا، کھلے پارکوں میں مذہبی لباس و تریشول سے پریڈ کرانا، یہ سب جمہوریت کے خدّوخال سمجھے جائیں، اور اقلیتی اسکول یا دینی مدرسے ان کو بنیادپرستی کے اڈّے نظر آئیں، جبکہ مسجدوں اور مدرسوں کے دروازے ۲۴ گھنٹے کھلے رہتے ہیں، سچی بات یہ ہے کہ ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ جیسا معاملہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تمام غیرمسلم قوموں خاص کر کے یورپ کی پوری تاریخ ہی دہشت گردی، ظلم و تشدد، بربریت، خونریزی، قوموں کے بنیادی حقوق کی پامالی اور ان کے تاریخی نقوش اور تہذیب وکلچر مٹادینے سے بھری پڑی ہے، جب انگریز کا سورج چمک رہا تھا تو شمالی افریقہ، صومالیہ، کینیا، زنجیبار، ملایا اور خود برّصغیر میں مسلمانوں کا خون بہانے کیلئے قتل گاہیں (Slaughter House) بنائی گئیں، اور لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیاگیا، اور کیا اسپین کی تاریخ بھول گئے؟ مذہبی تفتیشی عدالتیں قائم کی گئیں، جس کا مقصد ہی اسپین کے مسلمانوں کو وحشت ناک سزائیں دینا تھا، کتنوں کو زندہ جلایا گیا، کتنوں کے ناخن اکھاڑے گئے، آنکھیں نکالی گئیں، مجموعی طور پر اسپین میں چرچ کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والوں کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ تک پہنچی ہے، اس کی مزید تفصیل آپ امریکی مصنف وِلْیَم ڈریپر کی کتاب معرکہٴ مذہب وسائنس A History of the conflict between religion and science میں دیکھ سکتے ہیں۔

حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی

ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کردیتا ہے گاز

ہوگیا مانندِ آب ارزاں مسلمانوں کا لہو

مضطرب ہے توکہ تیرا دل نہیں دانائے راز

ہارون: آپ کی تحقیقی وتفصیلی رپورٹ سے یورپ کی دوہری پالیسی اور مذہبی کٹر بنیادپرستی بھی کچھ کچھ سمجھ میں آگئی، لیکن مسلمانوں نے اس کے مقابلہ میں جو طریقہ اپنایا ہے کہ ان کے خلاف ہنگامہ آرائی کرکے جلوس نکالنا اور آزادیٴ رائے پر بالکل ہی بریک لگانا یہ مناسب نہیں ہے، اخبارات وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان آزادیٴ رائے واظہارِ خیال کے بھی سخت مخالف ہیں، جب کبھی کسی صحافی یا مصنف نے کوئی بات طنزیہ یا مزاحیہ انداز میں لکھ دی تو مسلم سماج آگ بگولہ ہوجاتا ہے، حالانکہ اس آزادیٴ رائے واظہارِ خیال اور تحقیق و تنقید کے دور میں ہر کسی کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے۔ اگر اس طرح کسی کے خلاف قتل کے فتوے، کسی کی کتاب جلادینا یا اس کے خلاف ہنگامہ آرائی ہوتی رہے گی تو ادب، تحقیق وتنقید اور بے لاگ تبصرہ، کارٹون، مزاح وغیرہ جو چیزیں آج کے سیکولر دور میں علوم وفنون کا ایک جزو بن چکی ہیں، بلکہ اب تو اس کو بھی مستقل فن کا درجہ حاصل ہے، وہ ختم ہوجائے گی۔ کچھ لوگوں کا تو کہنا ہے کہ اسلام میں فرد کی آزادی نام کی کوئی چیزہیں نہیں، مولوی ملاّؤں کی باتوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح سردھنتے ہوئے مان ہی لینا ہے، گویا اب تک مسلمان قرونِ وسطیٰ والی دنیا سے باہر نہیں نکلے ہیں، زمانہ کی نبض شناسی اور وقت کے تقاضوں سے غافل ہوکر ہی مسلمان دنیا میں پیچھے ہیں۔

امتیاز: بھائی ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ کی طرح آپ کیا الٹی بات اپنے آقاؤں کے سکھلانے سے بول رہے ہیں، آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ دنیائے انسانیت کو فرد کی آزادی کا احساس سب سے پہلے اسلام نے ہی کرایا ہے، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرد کی آزادی کا وہ عالم گیر سبق سکھلایا تھا کہ لوگ خود آپ کے بھی کسی عمل کے بارے میں آپ سے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے دریافت کرلیتے تھے، ایک باندی اپنے شوہر کے نکاح میں رہنا نہیں چاہتی تھی، آپ صلى الله عليه وسلم کے فرمانے پر عرض کرتی ہے کہ اللہ کے رسول اگر آپ کا حکم ہے تب تو سرآنکھوں پر؛ اور اگر مشورہ ہے تو مجھے منظور نہیں ہے، ایک جوان عورت آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں آکر ہمت سے عرض کرتی ہے کہ اللہ کے رسول میرے والد نے میرا نکاح میرے چچازاد بھائی سے طے کیا ہے، جو مجھے منظور نہیں ہے، تو پیغمبراسلام صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہیں نکاح رد کرنے کا اختیار ہے، لڑکی کہتی ہے کہ باپ کا طے کیا ہوا نکاح تو رد نہیں کرتی، لیکن عورتیں یہ بات جان لیں کہ شریعت نے باپ کو مکمل اختیار نہیں دیا ہے،اس لئے میں نے درخواست دی ہے۔

ایک بوڑھی عورت کھڑے ہوکر ۱۰/لاکھ مربع میل کے رقبہ پر حکومت کرنے والے امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضى الله عنه سے کہتی ہے کہ عمر ٹھیک ٹھیک حکومت کرنا، قاضی شریح خلیفہٴ وقت حضرت علی رضى الله عنه سے عدالت میں آپ کے فرزندِ ارجمند حضرتِ حسین کو گواہ بنانے پر یہودی کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں، مصر کے فاتح اور گورنر حضرت عمروبن عاص رضى الله عنه کے لڑکے ایک قبطی کی پٹائی کرتے ہیں، وہ قبطی مصر سے مدینہ منورہ آتا ہے اور حضرت عمرو بن عاص رضى الله عنه کی موجودگی میں حضرت عمر رضى الله عنه کے کہنے سے گورنر کے لڑکے کو کوڑوں سے سزا دیتا ہے، اس طرح کے سینکڑوں تابناک وشاندار واقعات سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے۔

اسلام اس طرح ظلم وجبر، انسانی جان کی بے قدری، عدم مساوات، بے حیائی، رشوت خوری، سود اور جنسی بے راہ روی وغیرہ انسانی سماج میں ہونے والی برائیوں کو خود بھی ناپسند کرتا ہے، اور ان کی مذمت میں لکھنے والوں اور انسانی آزادی کے علمبرداروں کا خوب استقبال کرتا ہے، لیکن افسوس ہے کہ یورپ کو فرد کی آزادی کے نام پر صرف ایک ہی مضمون ملا ہے، وہ ہے اسلامی تعلیمات اور پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کی مقدس ذاتِ گرامی، کاش کہ وہ انسانی سماج کو گھن کی طرح کھانے والے مہلکات اور مصائب سے نجات دینے کے لئے قلم اٹھاتے، لیکن وہاں ان کی روشنائی خشک ہوجاتی ہے، آزادیٴ رائے کے نام پر آپ صلى الله عليه وسلم کی سیرت مقدسہ معاندانہ انداز میں لکھی گئی، آپ کے ساتھ گستاخی کرتے ہوئے انتہائی گندی اور بازاری زبان استعمال کی گئی۔

حتی کہ یورپ کی ڈکشنریاں، انسائیکلوپیڈیا، تاریخ و جغرافیہ کی کتابیں بھی اس گندہ ذہنی سے محفوظ نہ رہ سکیں، تھوڑے تھوڑے دنوں کے بعد اسلامی غیرت کو چیلنج کرنے والے اور دینی عظمت و تقدس سے بے اعتمادی پیدا کرنے والے مباحث ومضامین اٹھائے جاتے ہیں، کچھ نام کے مسلمان اہل قلم جن کی ذاتی صلاحیت وحیثیت یورپ کے نزدیک سوائے اسلام دشمنی کے کچھ بھی نہیں۔ لیکن وہائٹ ہاؤس میں ان کے ساتھ خفیہ میٹنگ ہوتی ہیں، ان کی حفاظت کی فکر یورپ وامریکہ کو ہوتی ہے۔ بنگالن مصنفہ کی ان کو فکر ہے اور کروڑوں بنگالی عوام سیلاب اور قحط سالی کے شکار ہوئے، ان کی کوئی فکر نہیں۔ کبھی تجارتی کمپنیوں کی طرف سے اسلامی تعلیمات اور پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کے نام مبارک کی توہین کرنے والے جوتے، کپڑے وغیرہ تیار کرکے مسلمانوں کے احساسات کو مجروح کیا جاتاہے؛ بلکہ انٹرنیٹ جیسے اہم کمپیوٹری شعبہ میں بھی وہ کتابیں اور مضامین منظر عام پر لائے جاتے ہیں، جن پر سرکاری طور سے پابندی ہوتی ہے، چند سال پہلے فلسطینی وزارت کو ایک کمپیوٹری ڈاک ملی، جو انٹرنیٹ کے ذریعہ نیویارک سے بھیجی گئی تھی، جس میں آپ صلى الله عليه وسلم کی نہایت گھناؤنی و گندی تصویر بنائی گئی تھی، ترکی میں پیغمبر اسلام کے خلاف لکھنے والوں کو کوئی سزا نہیں اور مصطفی کمال پاشا پر تنقید کرنا قابل سزا اور ملک سے غدّاری کے مرادف ہے، یہ حال ہے آپ کی آزادیٴ رائے کا۔

اس قوم میں ہے شوقی اندیشہ خطرناک           جس قوم کے افراد ہوں ہر بندسے آزاد

گو فکر خدا داد سے روشن ہے زمانہ              آزادیٴ افکار ہے ابلیس کی ایجاد

***